کہتے ہیں کہ خواہشات سے زیادہ، یادیں زندگی کا حصہ ہوں تو اچھی ثابت ہوتی ہیں۔ خواہشات کا کیا ہے، وہ تو پل بھر میں کئی پیدا ہو جاتی ہیں، ہاہا کچھ محنت نہیں کرنا پڑتی۔ کبھی کبھی دل اس انداز سے دھڑک اٹھتا ہے کہ اس کے دھڑکنے کی وائبریشنز کے ساتھ ہی خواہش جنم لے لیتی ہے۔ خواہشات، کبھی حسد سے مار دینا یا کسی کو غرور سے تباہ کر دینا، بس انہی مقاصد کے ساتھ تو وہ موڑ لیتی ہیں، اس کے علاوہ تو زندگی میں اور کوئی بھی وجہ نہیں رہی ہے ۔ ایک وہ وقت ہوتا تھا جب ایسا جذبہ ہوا کرتا تھا، کہ خواہش و تمنا زندگیاں روشن کرنے کی ہوا کرتی تھیں اور ایک نیا انقلاب لانے سے منسلک ہوتی تھیں۔ مگر آج کی خواہشات آہ، اور بھلا آدم کا بیٹا کر بھی کیا سکتا ہے۔ سکون تو تب ہی ملتا ہے جب، انہیں قتل کر کے پھینک دیا جائے اور کسی صبر جیسی شے کی بھی مہمان نوازی کر لی جائے۔
وہ کہا کرتے تھے کہ خواہشات کے پیچھے کیوں نہیں دوڑتے، دیکھو ذرا دنیا کے کتنے رنگ، خوبصورت اور جگہ جگہ سندرتا۔۔۔ کئی رنگ، مختلف ذوق کی روحیں، طرح طرح سے چمکتی اور جھلکتی ہوئی زندگیاں، اور اتنا وزن اٹھائے ہوئے کہیں نا کہیں خالی سے خنکتے ہوئے جسم۔۔۔
مگرتعلیم کے ان سالوں میں ہم چاروں، یہیں تھے، اسی جگہ پر، کچھ بھرم تو تھے جو لگتا ہے کہ بکھر گئے ہیں۔ مگر آج جب پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں، تو دل میں الحمداللہ کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ تب وقت عجیب لگتا تھا، جس کا کچھ فائدہ نہیں تھا مگر اب نم آنکھیں یہی کہنے آتی ہیں، کہ وہ دن اچھے تھے۔ اب ایسے بھرم سے چاہت نہیں رہی کہ جنہیں توڑا جا سکے مگر، آج بھی میں ان کے ساتھ یہاں بیٹھنا چاہتا ہوں اور مسکرانا چاہتا ہوں ویسے ہی، مگر بلا شکوہ!
دل میں خلوص، چہرے پر مسکان، تربیت میں وفا، اور اخلاق میں سادگی لیے، کچھ نوجوان اب وہاں نہیں دکھتے۔ ہاں وہ یادیں جو یہاں گزاری گئی ہیں، وہ نہیں بھول سکتے اور بھلا بھولنا چاہے بھی کون۔۔۔ اپنے ہاتھوں سے بوئے ہوئے درخت کے ٹھنڈے سائے سے بھلا کون بھاگنا چاہے گا۔ تو بس میں نے اپنی ان چار سالہ تعلیم کے عرصے میں یہ ہی جانا ہے کہ زندگی خوبصورت ہے مگر اسے میلا ہم کرتے ہیں!