blank

Sham E Ramadan

بس ماہ رمضان کے سورج کی ڈھلتی ہوئی کرنوں کے سائے میں لطف اٹھایا جا رہا تھا اور خوشیوں سے بھری منزل سے دوری بھی کم ہو رہی تھی، کہ  اتنے میں ہی تیز رفتار سے سکوٹر میرے پاس سے گزر رہا تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کی نظر میری طرف پڑی اور سکوٹر ایک دم سے رک گیا ، اور زمین پر پڑی مٹی نے دھول کا روپ دھار لیا، جانے کون تھا وہ! مگر دل کہتا ہے کہ کاش کبھی دلوں کی میل بھی ایسے ہی دھول بن کر اڑتی ہوئی دکھے۔نہایت ہی پیچیدہ حالت تھی ۔ بس جونہی اس انسان کا چہرہ میری نظروں کے سامنے آیا تو بڑے عجیب  اورتنزیہ لہجے میں کہنے لگا کہ نہیں، نہیں میں جا رہا ہوں میں جا رہا ہوں۔۔۔تو ناجانے کیوں اسے دیکھتے ہی   میری زبان سے اتفاقاً نکلا “الطاف!!!” مجھے معلوم نہیں تھا، میں پریشان ہو گیا اور سوچ میں پڑ گیا کہ کون ہے یہ۔۔۔ جانتا بھی نہیں ہوں اور نام بھی لے رہا ہوں۔۔۔ جیسے ہی  میری زبان سے اس نے اپنا نام سنا تو جھپٹ کر میرے گلے سے لگ گیا جس سے میں اور بھی تجسس میں پڑ گیا۔ اس نے مجھے خوشی کے مارے  زور سے گلے لگا کر رکھا اور میں سوچتا رہا کہ کون ہے یہ۔۔۔

خیر، اس کے جذبات کو چوٹ نہ پہنچے، اس ڈر سے میں اس کی ہاں میں ہاں ملاتا رہا اور ایسا ہی انداز اپنائے رکھا کہ جیسے میں اسے جانتا ہوں۔ حال چال پوچھنے اور بتانے کے بعد کہنے لگا کہ مجھے تو تم پر تھوڑا شک تھا کہ کہیں تم کوئی اور ہی نہ ہو لیکن تمہیں تو میرا نام بھی یاد ہے اور یہی وجہ تھی کہ اسکی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ اُف! لیکن اسے کیا پتا تھا کہ میں تو شرم کے مارے چھپا رہا  ہوں کہ میں اسے نہیں جانتا۔ خیر میں اس سے باتیں کرتا رہا۔ پھر میرا تجسس بڑھنے لگا اور میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھ لیا،”کیا تم میٹرک میں میرے ساتھ پڑھتے تھے؟” اس بات پر وہ حیران رہ گیا اور خاموش ہوگیا اور گھور کر میری طرف  دیکھنے لگا۔ اور میری نادانی کی وجہ سے اس کے چہرے پر ہلکی سی مسکان بھی تھی۔ اس انداز کی وجہ سے میں تھوڑا کچا ساہو گیا، اور اک پل کے لیے یوں لگا کہ جیسے لَب سِل سے گئے ۔ پھر اس نے جب رحمان پبلک سکول کا نام لیا تو معلوم ہوا کہ وہ تو اول کلاس میں میرے ساتھ پڑھتا تھا۔ تب ہم اپنے دوسرے ہم جماعت کے بارے  میں سوچنے لگ گئے اور یوں گفتگو کرتے چلے گئے اور پوری جماعت کو وہیں باتوں باتوں میں اکٹھا کر لیا۔ بہت ہی خوشگوار لمحات تھے، یقین نہیں آرہا تھا۔ آج سے ۱۳ سال پرانے دوست کا یوں ملنا، نا جانتے ہوئے بھی اتفاقاً زبان سے اس کا نام نکلنا اور پھرپرانی یادیں تازہ کرنا۔۔۔

سچ کہتے ہیں کچھ لوگ ہمارے اندر بسے ہوتے ہیں یہاں تک کہ فاصلے اور رابطے کوئی قیمت نہیں رکھتے۔ کچھ ایسے ہوتے ہیں جنہیں ہم نہیں جانتے، جو ہماری پہچان میں نہیں ہوتے، وہ صرف ہماری سوچ میں ہی انجان ہوتے ہیں۔ انہیں جاننے کے لیے ہمیں اپنے اندر جھانکنا پڑتا ہے، اپنے ضمیر کو سمجھنا پڑتا ہے، کہ روح کی غذا، جسمانی غذا کے علاوہ اور کس غذا کی ضرورت ہوتی ہے۔ دل کی دھڑکن کئی دفع ہمیں کوئی نا کوئی پیغام دینے آتی ہے جسے ہم جانے انجانے نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اور جیتنے کی فکر ہمیں اصل جیت سے دور لے جاتی ہے۔ اگر کبھی ہم ایسے پیغام کو پڑھ لیں، تو دنیا خوبصورت ہو جائے گی۔ اور پیغام ایسا ہو گا جس کی پیروی کرتے کرتے وہ ہمیں جنت تک پہنچا دے گی۔ کیونکہ کہتے ہیں کہ “دل وچ رب وسدا” تو دل کی دھڑکن کیسے غلط ہو سکتی ہے۔ اور جو قسمت اور مقدر میں لکھ دیا گیا ہو وہ تو پھر ہو کر ہی رہتا ہے۔ ہمارے آس پاس دل کے اچھے لوگ بہت موجود ہیں، بس مسئلہ یہ ہے کہ ہار کسی کو پسند نہیں۔ تو کیوں نا آج سے ہم خوشیاں بانٹیں، کوئی نا کوئی ایسا ضرور ہوتا ہے جسے ہم سے امید ہوتی ہے اور وہ اس انتظار میں ہوتا ہے کہ اس کی پکار سنی جائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں لوگوں کی ضرورتیں سمجھنے اور جذبات و حالات کا احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!

پھر اس نے سب کے بارے میں پوچھا، سب کا حال دریافت کیا۔ اور کچھ کے ٹوٹے پھوٹے نام لیے۔ اس طرح گفتگو لمبی ہو گئی۔ اس کی خوشی کا لیول بھی عروج پر تھا، اور میری خوشی کا بھی کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ ہائے ایک شخص مجھے ابھی تک یاد رکھے ہوئے تھا

Similar Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *