Diye Hain Hum

میں ایک طالبِ علم ہوں ۔ ہاں مجھے خوشی بھی ہے کہ میں ایک طالبِ علم ہوں کیوں کہ  محمد ﷺ نے  علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض قرار دیا ہے۔  ایک انسان کی کامیابی اور بھلائی اسی میں ہے  کہ وہ مرتے دم تک طالبِ علم ہی رہے ۔ انسان اپنی آخری سانس تک علم سیکھتا رہتا ہے چاہے وہ کسی بھی حالت میں ہو ، کوئی استاد ہو یا نہیں، کتابیں ہوں یا نہیں، لیکن یہ زندگی ہی بہت بڑی اُستاد ہے جو کہ انسان کو کچھ نہ کچھ سکھاتی ہی رہتی ہے۔ کچھ بھی ہو جائے علم کبھی ختم نہیں ہوتا یہ بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔

ہر ایک ماں کی خوشی ہوتی ہے کہ  اُس کا بیٹا طالبِ علم بنے، تعلیم یافتہ کہلائے، ترقی کرے اور اپنے والدین کے ساتھ اپنے ملک کا نام بھی روشن کرے۔ ایسے لمحات ہر بچے کی زندگی میں آتے ہیں۔ کبھی میری زندگی میں بھی ایسے پَل آئے تھے۔ اِن خوبصورت لمحات سے ایک دن میرا بھی واسطہ پڑا تھا۔ میری ماں نے مجھے ڈھیروں دُعائیں دے کر گھر سے روانہ کیا تھا۔ میں بھی اپنی ماں کی یہ تمنا پوری کرنے کے لیے اچھی اُمیدوں کے ساتھ گھر سے چل پڑا۔

            وقت کے ساتھ ساتھ میں مختلف علوم سے آشنا ہوتا گیا۔ میرے علم میں اضافہ ہو تا گیا۔ میرے رب نے مجھے میری تمام محنتوں کا پھل دیا اور کامیابیوں سے نوازا۔ میری ماں کی آنکھوں میں جو خوشی تھی کہ میں ایک طالبِ علم بن گیا ہوں، اُنہیں مجھ پر جو فخر تھا ان سے میں ہی واقف ہوں۔ میں اپنی محنت کی بدولت کامیاب ہو گیا۔ میں نے آسماں کو چھو لیا۔ زمانہ ایسا کہتا تھا۔ میں اپنے پاؤں پر کھڑا ہو گیا، میں نے ترقی کر لی، میں ترقی یافتہ بن گیا، زمانہ کہتا تھا، لوگ کہتے تھے کہ میں کامیاب ہو گیاہوں۔

وہ میرا آخری دن تھا۔ میں اپنے ہاتھ میں اعلیٰ درجے کی سند لیے چلا آرہا تھا۔ میں نے اپنے ہاتھوں میں انعامات پکڑے ہوئے تھے۔ لوگ میرے دونوں ہاتھوں میں انعامات دیکھ کر حیران ہو رہے تھے۔ میں ان کے لیے ایک اچھی مثال کی وجہ بن رہا تھا۔  بہت خوشی تھی مجھے کہ میری اور میری ماں کی دُعا قبول ہوگئی ۔ اور اُن  کی خواہش پوری ہو گئی ۔ میرے جذبات اور میرا جنون بار بار یہی کہ رہا تھا کہ میں نے واقع آسماں کو چھو لیا۔ میں ایک عالم بن گیا ہوں۔ میرا ہر قدم خوشی کا پیغام لے کر آرہا تھا۔ اب خوشی کا سورج طلوع ہوتا دکھائی دے رہا تھا۔ لیکن اچانک میرے قدم ایک جگہ ٹھہرنے کا باعث بنے۔ میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ جب میں نے صبح صبح ایک نو سالہ بچے کو اپنے مالک کی دھمکیوں سے ناشتہ کرتے ہوئے دیکھا۔ اُس بچے کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ وہ پھول جسے کھلنا چاہیے تھا  و ہ مرجھایا ہوا تھا۔ اُس کے آنسو یوں لگ رہے تھے کہ  جیسے صبح کی تازہ ہوا میں پھول کے اوپر شبنم کے قطرے ہوں۔  وہ منظر ،وہ کیفیت دیکھتے ہی میرے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی۔ وہ منظر دیکھتے ہی میرے ذہن میں اگر کوئی بات تھی تو صرف یہی کہ میں کامیاب انسان نہیں ہوں۔ میری مُسکان بھی اس معصوم بچے کے آنسوؤں کے ساتھ بہ گئی تھی۔ اس دنیا کی بھیڑ اور ترقی کرنے کی فکر و لالچ میں نہ جانے میں یہ کیسے بھول گیا تھا کہ مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ ایک بھائی کا درد، اس کی تکلیف ، کوئی دوسرا دور کرنے کی کوشش نہیں کرے گا تو کون کرے گا۔ ہم سست اور کاہل، فقط کھوکھلے انسانوں کے سوا کچھ بھی نہیں۔ یہاں تک کہ ہم انسان بھی نہیں، کیوں کہ انسانیت ہوتی تو یہ سب نہ ہوتا ، یہ کبھی نہ ہوتا۔ جب تک میں اپنے چھوٹے بھائیوں کے آنسو پونچھنے کے قابل نہیں ہوتا، میں ایک ترقی یافتہ نہیں کہلا سکتا۔ ہاں یقین کرو کہ میں آج بھی طالبِ علم تو ضرور ہوں لیکن انسان نہیں۔علامہ اقبالؒ بھی خوب کہتے ہیں:   

؎ٹھہر سکا نہ ہوائے چمن میں خیمہ دِل
  یہی ہے  فصلِ بہاری، یہی ہے بادِ مراد
قصور وار’ غریب الدّیار ہوں  لیکن
ترا خرابہ فرشتے نہ کر سکے آباد

امیر لوگوں کے پاس ڈگری حاصل کرنے کے بہت سے طریقے ہوتے ہیں۔  لیکن ان غریبوں کے پاس صرف ایک  ہی راستہ ہوتا ہے جس کی مدد سے وہ اپنی جائز ضروریات پوری کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں،  اور علم حاصل کر سکتے ہیں، اس دنیا میں کچھ کر سکتے ہیں اور وہ ہے محنت۔لیکن یہی غریب بچے ایک دیے کی حیثیت رکھتے ہیں، کیوں کہ اِن میں روشن ہونے کی پوری تمنا اور جذبہ ہے لیکن انہیں کوئی روشن نہیں کرتا۔ جب اللہ تعالیٰ کی توفیق سے یہ چراغ روشن ہوئے تو انکی روشنی کی شعاؤں سے پوری دنیا  روشن ہو جائے گی۔ یہ بچے خود تو روشن نہیں ہو سکتے اِس لیے ہمیں ان کی مدد کرنی ہے ۔ اور یہ سب تب ہی ممکن ہے جب ہم انسانیت نام کی چیز سے آشنا ہوں گے۔ ہماری انسانیت بے حِسی کی بھینٹ چڑھ گئی ہے۔ ہم سب کو روشن ہونا ہے اور سب کو ظلم و ستم سے نکال کر اچھے اور بھلائی کے راستے میں لا کھڑا کرنا ہے ۔ کیوں کہ بجھے ہوئے تو ہیں لیکن دِیے ہیں ہم!

؎                                                                                                                                                               دیّارِ عشق میں اپنا مقام پیدا کر
                                                                                                                                                                                               
نیا زمانہ، نئے صبح و شام پیداکر

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *